Monday, October 18, 2021

Ahle Hadith naya firqa nahi-Ahle Hadtih Kon hain-Urdu

 

 

اہل حدیث کیا ھے اور کون ھیں "؟*

 

 

یہ دو لفظوں کا مرکب ہے:

 

(۱) اہل (۲) حدیث

 

اہل کا معنی والا۔ حدیث کا معنی بات اور گفتگو۔

 

اصطلاحاً: محدثین کی اصطلاح میں حدیث ہی اس قول فعل یا تقریر کوکہتے ہیں جو رسول ﷺ کی طرف منسوب ہو۔(القاموس الوحید)

 

نبی کریم ﷺ کی بات کے علاوہ اللہ کے کلام قرآن مجید کو بھی حدیث کہا جاتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ)(الزمر۔23) ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل فرمائی ہے۔

 

پتہ چلا کہ(قرآن و حدیث‘‘ ان دونوں کو مشترکہ طور پر ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے۔

 

اہل حدیث کا معنی قرآن و حدیث والا۔یعنی قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا۔

 

 *اہل حدیث کی ابتداء*

 

نبی کریم ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر وادی منٰی میں خلفاء اربعہ، عشرۃ مبشرہ، حفاظ قرآن ، کاتبین وحی و دیگر ہزاروں صحابہ کے عظیم الشان مجمع کو تلقین کرتے ہوئے کہا تھا’’تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسّکْتُمْ بِہِمَا کِتَابَ اللّٰہ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِ‘‘

 

ترجمہ:میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہوگے ہر گزگمراہ نہیں ہوں گے ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔

 

کتاب و سنت کا مشترکہ نام’’ حدیث ‘‘ہے اور ان دونوں پر عمل کرنے والے کو ’’ اہل حدیث‘‘ کہتے ہیں۔ لہذا جب سے ’’ قرآن و حدیث ‘‘ ہیں تب سے ان پر عمل کرنے والے موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ ’’ اہل حدیث‘‘ اس وقت سے ہیں جب سے ’’ کتاب اللہ و سنت رسول‘‘ ہیں۔

 

 *اہل حدیث کون ہیں؟*

 

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

’’صَاحِبُ الْحَدِیْثِ عَنْدَ نَا یَسْتَعْمِلُ الْحَدِیْثٌ‘‘(مناقب احمد لابن الجوزی)

 

اہل حدیث ہمارے نزدیک وہ ہیں جو حدیث پر عمل کرتے ہیں۔

 

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

اہل حدیث کی صفت یہ ہے کہ وہ حدیث پر عمل کرتے ہیں اس کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)

 

 *اہل حدیث کے امام*

 

(یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ )(الاسراء:71)

 

کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:قَالَ بَعْضُ السَّلَفِ : ہَذَا اَکْبَرُ شَرَفِ لِّاَ صْحَابِ الْحَدِیْثِ لِاَّنَّ اِمَامَہُمُ النَّبِیُ ﷺ‘‘(تفسیر ابن کثیر)

 

ترجمہ: سلف میں بعض لوگوں نے کہا: یہ اہل حدیث کیلئے سب سے بڑا شرف ہے کہ ان کے امام نبی ﷺ ہیں۔ اور اللہ نے نبی ﷺ کے پیروی اور اتباع کا حکم دیا۔ اس لئے اہل حدیث شریعت کی پیروی کے لئے نبی ﷺ کو ہی اپنا امام مانتے ہیں۔

 

 *اہل حدیث سے مراد:’’ محدثین‘‘ یا ’’ حدیث پر عمل کرنے والے‘‘ ؟*

 

بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ’’ اہل حدیث‘‘ سے مراد صرف’’ محدثین‘‘ ہیں۔ جب کہ اس سے ’’ محدثین‘‘ اور’’ حدیث پر عمل کرنے والے عوام‘‘ دونوں مراد ہوتے ہیں۔

 

جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(’’صَاحِبُ الْحَدِیْثِ عَنْدَ نَا یَسْتَعْمِلُ الْحَدِیْثٌ‘‘)

 

ہمارے نزدیک اہل حدیث وہ ہیں جو حدیث پر عمل کرتے ہیں۔(مناقب احمد لابن الجوزی209)

 

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل حدیث کی صفت یہ ہے کہ وہ حدیث پر عمل کرتے ہیں اس کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔(صحیح ابن حبان)

 

ابو منصور عبد القادر البغدادی نے ملک شام، اذربابیجان، افرقہ، اندلس، بحر عرب، زنج اور یمن کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا249 وہ سب اہل حدیث مذہب پر تھے۔(اصول الدین317)

 

اگر اہل حدیث سے مراد صرف محدثین ہیں توکیا یہ سمجھا جائے کہ اس علاقہ کے تمام لوگ محدثین تھے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جواب ہوگا نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے باشندے قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے تھے۔

 

 *اہل حدیث اور اتباع سنت*

 

1۔اس مسئلہ میں اہل حدیث سلف صالحین کے طریقہ پر ہیں۔ اور ہ ہے نبی ﷺ کی سنت پر عمل ۔

 

2۔اہل حدیث نبی ﷺ کی سنت پر قیاس یا رائے کو مقدم نہیں کرتے۔

 

3۔اہل حدیث سنت کے مقابلہ میں کسی امام کے قول کو ترجیح نہیں دیتے۔

 

4۔ اہل حدیث یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اتباع سنت میں ہی دنیاو آخرت کی کامیابی ہے۔

 

5۔اہل حدیث یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اتباع سنت یہ مسلکی اختلاف کے خاتمے کا ذریعہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کا اتحاد مضمر ہے۔

 

 *اہل حدیث اور تقلید*

 

اہل حدیث صحابہ، تابعین و آئمہ اربعہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔نہ صحابہ کسی کے مقلد تھے نہ تابعین، نہ محدثین، نہ سلف صالحین، حتی کے ائمہ اربعہ بھی کسی کے مقلد نہیں تھے بلکہ چاروں اماموں نے تقلید سے سختی کے ساتھ منع کیا۔

 

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:’’اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مّذْہَبِی‘‘ جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔(حاشیہ ابن عابدین)

 

امام مالک رحمہ اللہ نے کہا:’’لّیْسَ اَحَدٌ بَعْدَ النَّبِی ﷺ اِلاَّ یُوخَذَ مِنْ قَوْلِہِ وَیُرَدَّ اِلاَّ النَّبِی ﷺ‘‘(ابن عبد البر فی الجامع)

 

ترجمہ نبی ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی۔

 

امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا:’’لاّ تُقَلِّدُوْنِی‘‘ تم میری تقلید نہ کرو۔(حلیۃ الاولیاء)

 

امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:لاّ تُقَلِّدُنِیْ واَلاَ تُقَلِّدُ مَالِکاً وَلاَ الثَّوْرِی وَلاَّالُاَوزَاعِی خُذْ مِنْ حَیْثُ اَخَذُ۔

 

ترجمہ:میر تقلید مت کرو، نہ امام مالک کی ، نہ ثوری کی اور نہ اوزاعی کی، مسائل وہاں سے لو جہاں سے انہوں نے لیا ہے۔ اس سے سمجھ میں آیا کے تقلید کرنا اماموں کی نافرمانی ہوئی او یہ ان کے شان میں گستاخی ہے بھلا یہ گستاخی اہل حدیث کیسے کرسکتے ہیں۔

 

 *عقائد اہل حدیث*

 

1۔اہل حدیث کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب و سنت پر مبنی ہے سلف صالحین، ائمہ اربعہ، محدثین و فقہاء کرام کا عقیدہ ہے۔

 

2۔ربوبیت، الوہیت اور اسماء صفات میں اللہ کو یکتا ماننا۔

 

3۔ اللہ عرش پر مستوی ہے ، ہر جگہ موجود نہیں ہے۔

 

4۔اللہ ہر ایک کی سنتا ہے، کسی میت کے وسیلہ کی ضرورت نہیں۔

 

5۔تمام عبادات کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

 

6۔اسماء و صفات پر بغیر تعطیل، تشبیہ، تمثیل اور تاویل کے ایمان رکھنا۔

 

7۔ایمان نیک عمل سے بڑھتا ہے اور برائی سے گھٹتا ہے۔

 

8۔زبان سے اقرار کرنے، دل سے یقین کرنے اس اس کے مطابق عمل کرنے کو ایمان کہتے ہیں۔

 

9۔قرآن و حدیث کو رائے و قیاس پر مقدم کرنا۔

 

10۔اتباع سنت کے مقابلہ میں بدعات و اندھی تقلید کا رد کرنا۔

 

11۔صحابہ سے محبت اور ان کی تعظیم ایمان کا جز ہے۔

 

12۔ائمہ، محدثین، فقہاء و اولیاء کرام کے احترام کو ضروری سمجھنا۔

 

13۔مسلکی تعصب کو اسلامی تعلیمات کے لئے خطرہ سمجھنا۔

 

14۔صوفیت، قبوریت و بدعات سے مسلمانوں کو دور رکھنا۔

 

15۔ عقیدہ میں منحرف فرقہ شیعیت، قادیانیت، صوفیت وغیرہ سے مسلمان کے ایمان کی حفاظت کرنا۔

 

 *منہج اہل حدیث کے اصول*

 

1۔قرآن و حدیث:ان کی موجودگی میں کسی اور کی طرف التفات نہ کرنا۔

 

2۔صحابہ کے فتاوے: اس میں اختلاف نہ ہو تو اسی پر عمل کرنا۔

 

3۔ صحابہ میں اختلاف ہو تو اس میں جو قول سنت سے قریب ہو اس پر عمل کرنا۔

 

4۔مرسل اور حسن حدیث کو لینا۔جب قولِ صحابی یا اجماع اس کے خلاف نہ ہو۔

 

5۔وقت ضرورت قیاس پر عمل کرنا۔(اعلام الموقعین ابن القیم)

 

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حدیث کا یہ طریقہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی تھا۔(القول المفیدادلۃ الاجتہاد و التقلید)

 

 *اہل حدیث عہد صحابہ میں*

 

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حدیث کے جوان طلبہ کو دیکھ کر کہتے تھے:مرحباً رسول اللہ ﷺ نے تمہاری بابت ہمیں وصیت فرمائی ہے کہ ہم تمہارے لئے اپنی مسجدوں میں کشادگی کریں۔اور تم کو حدیث سمجھائیں کیونکہ تو ہمارے بعد جانشین اور اہل حدیث ہو۔(شرف اصحاب الحدیث)

 

 *اہل حدیث عہد تابعین میں*

 

سید التابعین عامر بن شرجیل شعبی رحمہ اللہ اہل حدیث تھے۔(تاریخ بغداد۲۲۷/۳)

 

امام مسلم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کو امام اہل حدیث کہا۔(مقدمہ مسلم)

 

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل حدیث ہر زمانے میں ویسے ہی ہیں جس طرح صحابہ اپنے زمانے میں تھے۔(المیزان الکبریٰ)

 

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل حدیث مذہب پر تھے۔(منہاج السنۃ)

 

 *اہل حدیث عہد تبع تابعین*

 

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حدیث میرے پاس نہ آئیں تو میں ان کے پاس ان کے گھروں میں جاؤں گا۔(شرف اصحاب الحدیث)

 

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اہل حدیث بنایا۔(حدائق الحنفیہ ۱۳۴)

 

 *اہل حدیث ائمہ اسلام کی نظر میں*

 

ائمہ اربعہ خود بھی اہل حدیث تھے اور بڑی ہی سختی کے ساتھ لوگوں کو اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے صرف قرآن و حدیث کی دعوت دیتے تھے۔

 

امام سفیا ن بن عیینہ کہتے ہیں:پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھ کو اہل حدیث بنایا۔(حدائق الحنفیہ ۱۳۴)

 

امام محمد شیبانی کہتے ہیں:ابن شہاب زہری مدینہ میں اہل حدیث کے نزدیک بڑے عالم تھے۔(موطا امام محمد)

 

شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:

 

اہل بدعت کی پہچان یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا کہتے ہیں۔(غنیۃ الطالبین)

 

امام محمد بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات درست ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے سب سے قریب اہل حدیث ہوں گے۔ (جواہر البخاری)

 

 

امام اللغۃ والخوخلیل بن احمد الفراہیدی ۱۶۴ھ فرماتے ہیں:فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے محافظ ہیں۔

 

خلیفہ ہارون رشید ۱۹۳ھ کہتے ہیں: چار صفات مجھے چار جماعتوں میں ملی:

 

۱۔کفر جہمیہ میں ۲۔بحث و جھگڑا معتزلہ میں ۳۔جھوٹ رافضیوں میں ۴۔حق اہل حدیث میں۔

 

 *ائمہ اربعہ اہل حدیث تھے*

 

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اہل حدیث بنایا۔(حدائق الحنفیہ ۱۳۴)

 

امام مسلم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کو امام اہل حدیث کہا۔(مقدمہ مسلم)

 

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:امام شافعی نے اپنے لئے مذہب اہل حدیث اختیار کیا اور اسی کو پسند فرمایا۔(منہاج السنۃ)

 

اور فرماتے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل حدیث مذہب پر تھے۔(منہاج السنۃ)

 

ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ سب کے سب اہل حدیث تھے۔

 

’’لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق‘‘ میری امت میں ایک جماعت ہوگی جو ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا’’طائفہ منصورہ‘‘ کی حدیث کی تشریح میں امام ابن مدینی کا قول نقل کیا ہے: ’’وہ گروہ اہل حدیث ہے‘‘( فتح الباری)

 

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر وہ اہل حدیث نہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں۔(نووی شرح مسلم)

 

امام ابن مبارک فرماتے ہیں: اس سے مراد اہل حدیث گروہ ہے۔(شرف اصحاب الحدیث)

 

صحابہ اور تابعین کے بعد بہت سے مشہور علماء ہیں جن سے اہل حدیثوں نسل در نسل علمی فیض حاصل کیا۔

 

جیسے ائمہ اربعہ:امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، صحاح ستہ کے مصنفین:امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام ترمذی امام نسائی، امام ابن ماجہ و دیگر محدثین۔

 

اسی طرح امام ابن تیمیہ، اما ابن القیم، اما ابن کثیر، امام ابن حجر، امام ذہبی، مجدد اسلام امام محمد بن عبدالوہاب، اما م شوکانی، امیر صنعانی، محدث اثر امام البانی، امام ابن باز،، علامہ ابن العثیمین، عبد اللہ بن الجبرین، صالح الفوزان، مختار الشنقیطی، عبد المحسن العباد۔ائمہ حرمین شریفین۔

 

اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، میان نذیر حسین محدث دہلوی، نواب صدیق حسن خان، فاتح قادیان ثناء اللہ امرتسری، داؤد غزنوی، ابوالکلام آزاد، عبید اللہ مبارکپوری، عبد الرحمن مبارکپوری،شمس الحق عظیم آبادی، علامہ احسان الہی ظہیر، مختار احمد ندوی، صفی الرحمن مبارکپوری وغیرہ۔( رحمهم الله اجمعین)

 

 *اہل حدیث ہندوستان میں*

 

شق القمر کے واقعہ کو سری لنکا کے بادشاہ نے اپنی آنکھ سے دیکھاتو قافلہ والوں سے معلوم ہوا کہ مکہ میں ایک نبی کی آمد ہوئی ہے اور شق القمر انہیں کی نشانی ہے تو اس نے اسلام قبول کیا اور نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے مکہ راونہ ہوا لیکن راستہ میں ہی اس کا انتقال ہوگیا۔

 

پھر عرب تاجرین کے ذریعہ ہندوستان میں اسلام داخل ہوا۔ سندھ میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ آئے تب سے سب اہل حدیث ہی تھے۔تقلید کے پیدائش ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ اندھی تقلید کا مہلک کینسر ابھی مسلمانوں میں داخل نہیں ہوا تھا۔

 

معروف سیاح ابوالقاسم المقدسی۳۷۵ھ میں ہندوستان کا سفر کیا تو اپنی متابب ’’ احسن التقاسم‘‘ میں لکھا کہ ’’ان مذاہب اصحاب الحدیث‘‘یہاں کے اکثر لوگوں کا مذہب اہل حدیث ہے۔

 

مگر چوتھی صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک کئی فتنے ظاہر ہوئے، ان میں سے ایک شیعیت اور دوسرا تقلیدیت ہے، یہ دونوں فرقہ طاقت کے بل بوطے پر پھیلنے لگے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن کو حدیث کا اہتمام کم ہوگیا، بارہ یا چار اماموں کا اہتمام زیلدہ ہوگیا۔

 

ہندوستان میں مغل حکومت کے دور میں فارسیت کو بے انتہاء قوت ملی، عربیت سے لوگ دور ہوتے چلے گئے۔نتیجہ میں قرآن و حدیث جو عربی زبان میں ہیں، لوگوں کا تعلق اس سے کم ہوگیا اور فارس سے آئی شیعیت اور تقلیدیت خوب پروان چڑھنے لگی۔

 

پھر گیارہویں صدی ہجری سے ایک نیا دور شروع ہوا۔ شیخ احمد شرہندی رحمہ اللہ المتوفی(۱۰۳۴ھ) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۱۷۵ھ) اور شاہ عبدالعزیر محدث دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی۱۲۳۹ھ) نے مسلمانوں کو بیدار کیا۔قرآن حدیث کی طرف ۔دوبارہ مائل کیا۔ تقلید اور مذہبی تعصب سے مسلمانوں کو روکا، درس حدیث کو عام کیا۔صرف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تقریباً ۵۰ سال دہلی میں درس حدیث دیتے رہے۔

 

جب شاہ اسماعیل شہید حج کے لئے مکہ گئے تو وہاں مجدد اسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے عقیدہ توحید کی تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔ کیونکہ ان کی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تحریک میں چند باتیں مشترک تھی۔

 

۱۔عقیدہ توحید کی دعوت ۲۔اتباع سنت کو فوقیت ۳۔اندھی تقلید سے مسلمانوں کو روکنا۔

 

۴۔ ائمہ اکرام کے فتاوے کے مقابلے میں حدیث رسول کو ترجیح دینا۔

 

اسی اشتراک کی بناء پر دونوں تحریکیں متحد ہوکر جزیرہ عرب اور ہندوستان میں اچھا اثر دکھانے لگی اور اللہ نے ان کو کامیابی عطافرمائی۔ (اللہ ان کو مزید کامیابی عطاکرے)

 

 *جمعیت اہل حدیث ہندوستان میں*

 

اہل حدیث تو اسلام کے روز اول ہی سے ہیں۔لیکن جب مسلمانوں میں اعتقادی و فکری انحراف شروع ہوا۔اور اعتقاد و افکار کی بنیاد پر ان کے حاملین مختلف ناموں سے موسوم ہوئے کوئی شیعیت، کوئی خوارج، کوئی ماتریدی ، کوئی اشعری اور کوئی کسی امام کی اندھی تقلید کرنے لگا تو خالص قرآن و حدیث کی اتباع کرنے والوں نے’ جمعیت اہل حدیث‘‘ کے نام سے اپنی شناخت قائم کی۔

 

چنانچہ ۲۲ دسمبر۱۹۰۶ ؁ھ مطابق ۶ ذی القعدہ ۱۳۲۴ ؁ھ مدرسہ احمدیہ آرہ،صوبہ بہار کے سالانہ جلسہ میں آل انڈیہ اہل حدیث کانفرنس رکھی گئی جس میں درج ذیل علماء اکرام کو جمعیت کا ذمہ دار مقرر کیا گیا۔

 

صدر حافظ محمد عبد اللہ غازی پوری (المتوفی۱۹۵۷)

 

ناظم اعلیٰ فاتح قادیان ثناء اللہ امرتسری (المتوفی ۱۹۴۸)

 

خازن علامہ شمس الحق عظیم آبادی (المتوفی)

 

۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اہل حدیث بکھر گئے تھے اس لئے نئے سرے سے۲۰/جنوری ۱۹۵۷ کودہلی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کو ’’ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘ سے موسوم کردیا گیا، جس کے پہلے امیر مولانا عبدالوہاب صاحب آروی رحمہ اللہ اور ناظم اعلیٰ عبد الجلیل صاحب رحمانی (۱۹۸۶) منتخب ہوئے۔

 

 *’’ اہل حدیث اور جمعیت اہل حدیث‘‘*

 

بعض افراد ’’ اہل حدیث ‘‘ اور جمعیت اہل حدیث‘‘ ان دو ناموں میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں اور ’’ جمعیت اہل حدیث‘‘ کے قیام کی تاریخ کو ’’ اہل حدیث‘‘ کی ابتداء قرار دیتے ہیں۔

 

حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔’’ اہل حدیث‘‘ قوم اس وقت ہی سے ہے جب سے اسلام ہے۔اور’’ جمعیت اہل حدیث‘‘ ایک تنظیم کی شکل میں 22دسمبر 1906 ء مطابق ۶/ ذی القعدہ ۱۳۳۴ ؁ھ کو وجود میں آئی، لہذا اہل حدیث کو نیا فرقہ کہنا اسلام کی توہین ہے۔

واللہ اعلم۔۔

*اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو منہج اہل حدیث اپنانے کی توفیق دے آمین

 


No comments:

Post a Comment