Sunday, August 28, 2016

ذی الحجہ کے پہلے دس دِنوں کی فضیلت

ذی الحجہ کے پہلے دس دِنوں  کی  فضیلت

ماہ ذی الحج کے پہلے دس دِن بہت ہی فضیلت والے ہیں  اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے
 اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ (سورۃ الحج آیت ٢٨ )
اور وہ اللہ کے نام کو یاد کریں معلوم شدہ دِنوں میں  
'' عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے معلوم شدہ دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ یہ ذوالحجہ کے
پہلے دِس دِن ہیں (صحیح بخاری )
(ذوالحجہ کے پہلے دس دن)تکبیر، تہلیل اورتحمید کہنا
عبد اللہ بن عمر   رضی اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم  ﷺ نے فرمايا:" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئی عمل محبوب نہيں، ''اِن دِنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔''   لہذا     لاالہ الا اللہ،  اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو" مسند احمد  ( 7/ 224 )  اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں
الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر، الله أكبر،  ولله الحمد
اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئی معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے۔ جبکہ عورتیں یہ تکبیرات پست آواز میں کہیں
ایک  بہت  ضروری  اور   اہم   کام    یہ  ہے  کہ  جو   کوئی     قربانی    کرنا    چاہتا ہے وہ
ناخن اور  بال نہیں     کاٹے   جوشخص       قربانی   کرنا    چاہتا ہے
پہلی  ذالحجہ  سے   قربانی   کے  ہوجانے  تک  ۱۰ سے  ۱۲  ذالحجہ   -
حدیث  -  ام المومنین  ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ محمد  ﷺ نے فرمایا جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔  ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ لہٰذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہو 
۹ ذالحجہ کے   روزہ  کی  فضیلت بہت  ہے ۔ ۹ ذالحجہ یعنی  یوم عرفہ جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ،  جو لوگ  حج   نہیں کررہے   ہیں وہ     اِس دِن کا روزہ رکھتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو اِس دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں ایک سال پچھلے اور ایک سال اگلے کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ۔) صحیح مُسلم  (1162
۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف  ٩ ذی الحج  کا روزہ   رکھتے  تھے    ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ  ُ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اِن دس دِنوں کے روزے نہیں رکھے ’’
   )مُسلم حدیث ١١٧٦ ؍ 2645)
مسلمان بھائیو ! اپنے وقت کو کارآمد بنائیے   اور قیمتی گھڑیوں کے  پورے   فائدے  حاصل  کیجئے ایک مسلمان کو یہی زیبا  اور   مناسب   ہے کہ وہ اس عام بھلائی کے موسم  کا سچی توبہ کے ساتھ استقبال
 کرے   اسکا  خیرمقدم کرے اور   نیک اعمال کثرت کے ساتھ بجالائے
ذَ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (32/22 سورة الحج)  
جو اللہ کی نشانیوں نامزد چیزوں کی عزت و تکریم (اسکی   تعظیم) کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔
یہ اسکے   دل کی پرہیز گاری ہے
10  ذالحجہ   عید  کا  دن
مسلمان بھائی! اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں جس نے آپ کو یہ عظیم دن نصیب فرمایا
''اس دن میں ہمارا سب سے پہلا کام عید کی نماز ادا کرنا ہے اسکے  لیے   مسواک   کرے   غصل  کرے   عید  کے  اچھے  کپڑے  پہنے  خشبو  لگائے  سرمہ  لگائے  اپنے  بیوی  بچے ماں  باپ  گھر  کے  سارے  لوگوں کو  لے  کر  عید  گاہ جلدی   جانے  کی  کوشش  کرےبغیر  کچھ  کھائے  کے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  فَٱسْتَبِقُوا ٱلْخَيْرَ‌ٰ‌تِ ۚ  ﴿١٤٨سورة البقرة 
''نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔''
حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لئے کچھ کھا کر جاتے جبکہ عید الاضحی میں نماز کے بعد کچھ کھاتے۔
گھر  سے  باہر  نکلتے  ہی تکبیر کہنا شروع  کر دو
تکبیر مقید
تکبیر مقید  مشروع ہے جو کہ فرض نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں اور اس کا وقت یومِ عرفہ کے دن فجر کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کی آخری یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک تکبیرات کہی جائیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا   
  وَٱذْكُرُ‌وا ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَ‌ٰتٍ ﴿٢٠٣.سورة البقرة
''اور اللہ کو ان چند گنتی کے دِنوں (ایامِ تشریق) میں یاد کرو۔''
عیدگاہ کی طرف ممکن ہو تو پیدل جانا چاہئے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔عید کی نماز کھلی جگہ پر پڑھنا آپ ؐ سے ثابت ہے لیکن بارش وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے
عورتوں اور   لڑکیوں کو  عید  گاہ  لے  جانے  کے  احکام
تاکہ  نماز  باجماعت ادا  کریں   تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں
 اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں
علماے محققین کے نزدیک عید کی نماز پڑھنا واجب ہے  فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَٱنْحَرْ‌ ﴿٢سورة الکوثر) بے شک عید کی نماز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی رو سے واجب قرار پاتی ہےاور یہ وجوب بغیر شرعی عذر کے ساقط نہیں ہوتا۔ حیض والیوں اور نوعمر لڑکیوں سمیت تمام عورتوں پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوں اور حیض والی عورتیں عیدگاہ میں علیحدہ رہیں ۔نحرکے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا  ''  اس دن میں ہمارا سب سے پہلا کام عید کی نماز ادا کرنا ہے۔''
حدیث۔ اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : ہم  عورتوں  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  حکم  تھا کہ   عید  کے  دن    ہم حیض والیوں کو بھی عیدگاہ کی طرف نکالیں اور وہ لوگوں کے پیچھے رہیں (نمازیوں   کی  صفوں  سے کچھ  دوری  پر  ) ان کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں ۔'' (بخاری  2؍97)
حدیث۔ ایک  اور  حدیث مسلم میں  ہے ۔کہا اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا  نے حکم کئے گئے ہم لوگ کہ نکالیں حیض والیوں کو عیدین میں  اور پردہ دار (یعنی   پردہ   کرنے   والی  لڑکیوں  اور  عورتوں)  کو پس حاضر ہوں مسلمانوں کی جماعت میں اور دعا  میں       اور علیحدہ  بیٹھیں حیض والیاں اپنی نمازیوں کی صف سے      اس   پر   کہاایک عورت نے کہ یارسول اللہﷺ اگرنہ ہو کسی عورت کے پاس چادر،       فرمایا تب چاہیےکہ اوڑھائے اس کو ساتھ والی اس کی،   اپنی چادر سے (مسلم   ۴؍1934)
عیدکی  نماز      اور  زائد  ۱۲  تکبیرات
 پہلی  رکعت  میں تکبیر  تحریمہ  کے  علاوہ   ۷ تکبیریں (اللہ اکبر) کہنا اور  دوسری  رکعت  میں  ۵  تکبیریں قرأت   (یعنی  سورۃ   الفاتحہ) سے  پہلے  کہنا  سنت  ہے یہ  مسند  احمد  اور  ابن  ماجہ   اور  ابوداؤ   د    کے احادیث کے  کتب  میں  ہے
عید کی مبارک باد دینا عیدکے دن مبارک باد کے طور پر تقبل اﷲ مناومنکم کے الفاظ کہے جائیں
راستہ بدلنا محمد رسول  اللہ  ﷺ کے عمل کے مطابق عیدگاہ میں آتے جاتے راستہ بدلنا سنت ہے
عید کے دن  کوئی   روزہ  نہ  رکھے محمد رسول  اللہ  ﷺ نے  ‘‘ دو  دنوں  عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن  روزہ  رکھنے سے منع  فرمایا ‘‘ (ابوداؤ   د)
قربانی کے  مسائل
قربانی کس پر واجب ہے؟ ہر صاحبِ حیثیت کو قربانی کرنی چاہیے
قربانی  نہ  کرنےپر  وعید  ۔جیساکہ حدیث میں آتا  ہے سیدنا   ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمد رسول  اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی  نہ کرے تو  وہ  ہماری عید گاہ  کے قریب  نہ  بھٹکے  (سنن ابن ماجہ)
ایک  گھر  سےکتنے   بکرے      ذبح  کریں  یا   کتنے  بکروں  کی  قربانی    دیں
 ایک قربانی ایک گھرانے کے تمام افراد کی طرف سے بطور سنت کفایہ  ہوگی یعنی    کافی ہوگی،      جیسے کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عید قربان پر قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا    ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے    ایک بکری کی قربانی کرتا تھا،       وہ خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے،      حتی کہ لوگ اس عمل پر فخر کرنے لگے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا    جو آپ کو نظر آرہا ہے"ترمذی: (1505) حدیث حسن صحیح
نماز  عید  سے  پہلے   کی  گئی   قربانی     کا   شمار   عید   کی   قربانی   میں  نہیں   ہوگا۔ کیونکہ  رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے  (صحیح بخاری)
قربانی کے جانور  بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ (نر و مادہ) قربانی کے لیے ذبح کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔ (سورۃ الانعام ۳۴۱ و ۴۴۱)
جانور کی عمر قربانی کے جانوروں میں بھیڑ اور بکرا بکری ایک سال، گائے اور بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
علامہ  نے  کہا   ہے  کہ ۔ (1)جانور اگر اندھا ہو، یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد بینائی جاتی رہی ہو تو قربانی درست نہیں۔ (۲)کان ایک تہائی یا اس سے زائد کٹ گیا، اسی طرح دم ایک تہائی یا اس سے زائد کٹ گئی تو قربانی درست نہیں۔ (۳) جانور ایک پاں سے لنگڑا ہو تو اگر اس پاں کا بالکل سہارا نہیں لیتا تو قربانی درست نہیں، اگر اس پاں کا سہارا لیتا ہے لیکن لنگڑا کر چلتا ہے تو قربانی درست ہے۔ (۴) اگر اتنا کمزور جانور ہے کہ ہڈیوں کا گودا ختم ہوگیا ہے تو قربانی درست نہیں۔ (۵) اگر جانور کے تمام دانت گرگئے ہوں تو قربانی درست نہیں، اور اگر کچھ دانت گرے ہیں تو قربانی درست ہے
قصا  ب یا قصائی       کا  مسلمان  ہونا   ضروری  ہے اور  وہ   مشرک  نہ   ہو۔
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (يوسف   ۱۲؍106)
قربانی کی  دعا
بِسْمِ اللهِ واللهُ أَكْبَرُ اللَّهُمَّ مِنْكَ ولَكَ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي(مسلم)
اللہ  کے  نام  کے  ساتھ  (ذبح  کرتا  ہوں  ) اور  اللہ  سب  سے  بڑا  ہے  اے  اللہ  یہ  (قربانی )  تجھ  سے  ہے  اور  تیرے  ہی  گیے  ہے  اے  اللہ  مجھ  سے  یہ  قبول  فرما
قربانی کے گوشت کے بارے میں شرعی ہدایات
بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ ان میں سے ایک حصہ غرباءکے لیے،  ایک حصہ عزیز و اقارب کے لیے   اور ایک حصہ اپنے لیے،  لیکن اگر کوئی شخص اہل و عیال کی کثرت کی وجہ سے اپنے لیے ایک تہائی سے زائد بھی رکھے تو بھی جائز ہے۔ گوشت غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ قصاب کی اجرت میں گوشت دینا درست نہیں،   قصاب کی اجرت علیحدہ سے طے کرنی چاہیے۔
قربانی کی کھال کس کو دینی چاہیے
 قربانی کی کھال امیر فقیر سب کو دینی جائز ہے، اس کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں، لیکن اگر کھال فروخت کردی جائے تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا یعنی غریب کو دینا واجب ہے۔ تاہم مدارس دینیہ کو کھال دینا علم دین کی نشرواشاعت میں تعاون کرنا زیادہ افضل ہے۔ قربانی کی کھال کو اپنے کام میں لانا یعنی ڈول وغیرہ بنانا بھی جائز ہے، مگر کھال یا اس کی قیمت کو کسی کی اجرت میں دینا درست نہیں
 ایام  قربانی ۔ عید کے  دن   سے تین دن بعد تک ہیں
تالیف مرزا احتشام الدین احمد Email: mirzaehtesham1950@gmail.com